وہ وقت تھم گیا تھا، لمحے سے رک گئے تھے
وہ چھوڑ گئی ہیں دنیا ، میں نے یہ جب سنا تھا
بے جان ان کا چہرہ ، بے رنگ سا ہورہا تھا
وہ نیند میں تھی شاید، آزاد ہوگئی تھی
میں کپکپاتے قدموں پہ بے یقین سا کھڑا تھا
چہرے کو تَک رہا تھا، ماضی میں کھو گیا تھا
ابھی چند ساعتیں پہلے، میرے سرہانے بیٹھے
کوئی قصہ پرانا چھیڑے، وہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی
وہ بے پرواہ سی دکھتی ، بے خوف رہنے والی
میری بھوک پر مجھے یوں، بے وقت ڈانٹ رہی تھی
تنہائی میں وہ اکثر بے چین سی تھی رہتی
کچھ دل جلے کی کہتی ، کچھ دل میرے کی سنتی
کچھ تاریک راتیں ایسی، ان کے سرہانے بیٹھے
میں ان کو سن رہی تھی، وہ مجھ کو سنا رہی تھی
خاموش ہو چکی تھی، بے سدھ سی سو رہی تھی
ان کے سرہانے بیٹھی، مگر وہ کچھ نہ بول رہی تھی
اک ہجوم سا کھڑا تھا، ہر شخص رو رہا تھا
پر اک حسین چہرہ ، زرد ہو رہا تھا
میں ان پہ نظریں جمائے ، گھنٹوں یوں تک رہا تھا
وہ کچھ دیر آنکھیں کھولیں، امید لیے کھڑا تھا
کھڑکی سے باہر جھانکا، آسمان کو جو دیکھا
تاریک رات ایسی ، چاند سرخ ہو رہا تھا
چہرہ شفاف ان کا ، سرد ہو گیا تھا
ملنا مجھے تھا انکو، رخصت وہ ہو رہی تھی
بے بسی سی لگ رہی تھی، مٹی میں وہ سو گئی تھی
وہ ہمنوا تھی میری، وہ رازداں رہی تھی

Categorized in:

poetry,

Last Update: July 16, 2025