ابتدائی تعارف
علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی تاریخ کے اُن نابغۂ روزگار افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی شاعری سے دلوں کو گرمایا بلکہ اپنی فکر، فلسفہ اور سیاسی بصیرت سے ایک سوئی ہوئی امت کو بیدار کیا۔
اقبالؒ کا شمار اُن چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو اسلام کی اصل روح اور انسان کی خودی کا مفہوم سمجھایا۔ آپ کو بجا طور پر “شاعرِ مشرق”، “مفکرِ اسلام”، “حکیم الامت”، اور “معمارِ پاکستان” کہا جاتا ہے۔
🕊️ ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر
علامہ محمد اقبالؒ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد ایک درویش صفت، نیک دل، دیندار اور باعمل مسلمان تھے۔
اقبالؒ کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ وہ برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔
اقبالؒ کی والدہ امام بی بی نہایت شفیق، عبادت گزار اور صابر خاتون تھیں۔ علامہ خود فرماتے تھے کہ ان کی ماں کی دعاؤں نے ان کی زندگی میں برکت ڈالی۔
🎓 تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم
اقبالؒ نے قرآنِ پاک کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کو اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخل کیا گیا۔ یہاں ان کے استاد مولوی میر حسن تھے جو عربی، فارسی اور دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ مولوی صاحب نے اقبالؒ کے ذوقِ علم اور فطری ذہانت کو پہچان لیا اور ان کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اعلیٰ تعلیم
- ۱۸۹۵ء میں ایف اے مرے کالج سیالکوٹ سے مکمل کیا۔
- پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے فلسفہ میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔
- یہاں ان کے استاد سر تھامس آرنلڈ تھے جنہوں نے اقبالؒ کو مغربی فلسفے، منطق، اور جدید فکری رجحانات سے روشناس کرایا۔
- ۱۹۰۵ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔
- کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی۔
- لِنکن اِن سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔
- بعد ازاں میونخ یونیورسٹی (جرمنی) سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری (Ph.D) حاصل کی۔
ان کے مقالے کا عنوان تھا:
“The Development of Metaphysics in Persia”
(فارس میں ما بعد الطبیعیات کی ترقی)
⚖️ استاد، وکیل اور فلسفی
وطن واپسی پر علامہ اقبالؒ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانا شروع کیا۔ ان کی تدریس نے کئی نسلوں کے ذہنوں میں فکر کی چنگاری روشن کی۔
بعد میں انہوں نے وکالت کا پیشہ اپنایا لیکن جلد ہی محسوس کیا کہ قوم کی اصل خدمت عدالت میں نہیں بلکہ قلم اور فکر سے ہو سکتی ہے۔
اسی لیے انہوں نے شاعری، فلسفے اور اسلامی فکر کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر لی۔
🕯️ ادبی و فکری خدمات
اقبالؒ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں قادرالکلام شاعر تھے۔
ان کے کلام میں مذہبی روح، فکری گہرائی، سیاسی بیداری اور فلسفیانہ انداز جھلکتا ہے۔
ان کی شاعری کا مقصد محض حسنِ بیان نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کو بیدار کرنا تھا۔
اہم اردو تصانیف:
- بانگِ درا (1924ء) — ابتدائی اردو شاعری کا مجموعہ۔
- بالِ جبریل (1935ء) — فکری اور انقلابی شاعری۔
- ضربِ کلیم (1936ء) — جدید تہذیب پر تنقید اور اسلام کی برتری کا اظہار۔
- ارمغانِ حجاز (1938ء) — آخری شعری مجموعہ، جس میں اردو و فارسی دونوں شامل ہیں۔
اہم فارسی تصانیف:
- اسرارِ خودی (1915ء) — انسان کی خودی اور روحانی قوت پر مبنی۔
- رموزِ بے خودی (1918ء) — ملتِ اسلامیہ کی اجتماعیت پر بحث۔
- زبورِ عجم (1927ء)
- جاوید نامہ (1932ء) — فلسفیانہ اور روحانی سفرنامہ، جس میں مولانا روم بطور رہنما ساتھ ہیں۔
- پس چہ باید کرد، اے اقوامِ شرق (1936ء) — مشرقی اقوام کے لیے اصلاحی پیغام۔
🌟 فلسفۂ خودی
اقبالؒ کا سب سے نمایاں فلسفہ “خودی” ہے۔
خودی کا مطلب ہے انسان کا اپنی حقیقت، صلاحیت اور روحانی قوت کو پہچاننا۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی، انسان کی وہ طاقت ہے جو اسے مخلوق سے خالق کے قریب کرتی ہے۔
اقبالؒ فرماتے ہیں:
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔”
اقبالؒ کے نزدیک خودی کا ارتقاء عشق، عمل اور ایمان سے ہوتا ہے۔
وہ محض علم کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ عشقِ الٰہی کو روح کی قوت قرار دیتے ہیں۔
🕌 اسلامی فکر اور مذہبی فلسفہ
اقبالؒ نے اسلام کو محض عبادات تک محدود نہیں سمجھا، بلکہ اسے ایک زندہ، انقلابی، اور عالمگیر نظامِ حیات قرار دیا۔
انہوں نے مغربی مادیت، قوم پرستی، اور سرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کی تباہی کا سبب بتایا۔
ان کا ماننا تھا کہ اسلام ہی وہ قوت ہے جو انسان کو روحانی و اخلاقی بلندی عطا کر سکتا ہے۔
اقبالؒ کی نثری تصنیف “The Reconstruction of Religious Thought in Islam” (اسلامی فکر کی تشکیلِ نو) ان کے فلسفے کی بنیاد ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے اسلام کے فلسفے کو جدید سائنس اور عقل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔
⚔️ سیاسی شعور اور تحریکِ پاکستان
اقبالؒ ایک بلند پایہ مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت بھی رکھتے تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان اپنی مذہبی، تہذیبی اور سیاسی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتے جب تک ان کا علیحدہ وطن نہ ہو۔
1930ء کے الہٰ آباد اجلاس میں مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔
یہی تصور بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو دوبارہ سیاست میں آنے پر آمادہ کیا اور انہیں مسلمانوں کا واحد نجات دہندہ قرار دیا۔
اقبالؒ کا یہ تاریخی قول آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا چراغ ہے:
“وجودِ مسلم ایک جسم کی مانند ہے۔ اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو دوسرا عضو بھی بے چین رہتا ہے۔”
💞 اقبالؒ اور نوجوان نسل
اقبالؒ نوجوانوں کو امتِ مسلمہ کا سرمایہ سمجھتے تھے۔
ان کے نزدیک نوجوان ہی وہ قوت ہیں جو امت کو دوبارہ عروج دے سکتے ہیں۔
ان کے اشعار آج بھی نوجوانوں کو حوصلہ دیتے ہیں:
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں،
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔”
🌹 شخصیت اور طرزِ زندگی
اقبالؒ کی شخصیت متوازن، سنجیدہ، مگر محبت سے بھرپور تھی۔
وہ نہایت سادہ مزاج اور صوفیانہ طرزِ زندگی رکھتے تھے۔
ان کی گفتگو میں علم، شائستگی اور بصیرت نمایاں تھی۔
🕊️ وفات
اقبالؒ زندگی کے آخری برسوں میں بیماری میں مبتلا رہے۔
21 اپریل 1938ء کو وہ لاہور میں وفات پا گئے۔
ان کا مزار بادشاہی مسجد لاہور کے قریب ہے — جو آج بھی عقیدت مندوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔
🕯️ اقبالؒ کا اثر اور ورثہ (Legacy)
- اقبالؒ کے خیالات نے نہ صرف برصغیر بلکہ ایران، ترکی، افغانستان اور عرب دنیا کے اہلِ علم کو متاثر کیا۔
- ایران میں انہیں اقبالِ لاہوری کہا جاتا ہے۔
- پاکستان کے قیام کی فکری بنیاد انہی کے خواب سے نکلی۔
- ہر سال ۹ نومبر کو پاکستان میں یومِ اقبال منایا جاتا ہے۔
🌙 نتیجہ
علامہ محمد اقبالؒ کی زندگی ایک پیغام ہے — ایمان، عشق، خودی، اور عمل کا۔
انہوں نے مسلمانوں کو مایوسی سے نکال کر یقینِ محکم، عملِ پیہم، اور عشقِ حقیقی کا درس دیا۔
اقبالؒ نے جس خواب کی تعبیر دی تھی، وہ پاکستان کی صورت میں حقیقت بن چکی ہے۔
ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے:
“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔”
