نہ حرفِ سکوت ہوں میں، نہ عقل کا ثبوت ہوں
نہ رسم کا جمود ہوں، نہ وقت کا ہبوط ہوں
زمیں کی قید سے پرے ، فلک سے ہوں بلند تر
اک رازِ کائنات ہوں میں، تیری عقل سے بہت دُور ہوں
مجھے نہ جام چاہیے، نہ نغمۂ سرور کی طلب
ہر ساقی کی پیاس ہوں میں، پاکیزۂ بے شعور ہوں
نہ جسم ہوں ، نہ خواب ہوں، نہ ریشم و کموت ہوں
جلی روحوں کی راکھ ہوں میں، اندھے دل کا نور ہوں
مجنوں کی حکایتوں میں، جو جلتا تھا وہ ساز ہوں
لیلیٰ کی اس صدا میں ہوں، جو کہتی رہی میں خاک ہوں
ہر قصے کا وہ باب ہوں، جو وقت کے ورق پر لکھا گیا
میں سجدہ گاہِ حُسن تو ہوں، جنون میں لپٹا سوز ہوں
میں محفل کا محتاج نہیں ، نہ قسمت کا جواز ہوں
میری آہٹ سے ہے تُو بے خبر ، تیری دنیا سے آزاد ہوں
مناہل امداد